News reel

Followers

Saturday, November 9, 2013

وزیراعظم کے دورۂ امریکا کے مستقبل میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے

وزیراعظم کے دورۂ امریکا کے مستقبل میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ دنوں امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نوازشریف کا یہ پہلا دورہ ء امریکا تھا.
جس میں انہوں نے صدر امریکا کے علاوہ دیگر امریکی حکام کے ساتھ ساتھ امریکا میں مقیم پاکستانی تارکین وطن سے بھی ملاقاتیں کیں۔ پاکستان کی اندرونی و بیرونی صورت حال اور جغرافیائی اعتبار سے خطے کا ایک اہم ملک ہونے کے ناتے یہ دورہ خصوصی اہمیت کا حامل قرار پایا۔ پاکستان ہی میں نہیں پاکستان سے باہر بھی اس دورے سے پہلے ہی مختلف نوع کے تبصرے اور قیاس آرائیوں کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ دورہ مکمل ہونے کے بعد بھی اس پر گفتگو اور بحث کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیر اعظم کے اس دورے کے مقاصد کیا تھے اور ان کے حصول میں کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی اوردہشت گردی ، ڈرون حملوںاور کشمیر ایسے اہم اور بنیادی ایشوز کے علاوہ معاشی اور اقتصادی صورت حال کے حوالے سے اس دورے سے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے ’’وزیر اعظم کا دورہء امریکا، اثرات ونتائج ‘‘ کے موضوع پر ایکسپریس فورم کااہتمام کیا اور اس میں ملک کے معروف دانش وروں اور ماہرین کو اظہارِخیال کی دعوت دی ۔
ایکسپریس فورم کے مقررین میں امورخارجہ کے ماہر سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان، ماہر قانون ،استاد اور دانش ور پروفیسر ہمایوں احسان،دفاعی تجزیہ کار ایڈمرل (ریٹائرڈ ) جاوید اقبال اور بریگیڈیئر (ریٹائرڈ ) سید غضنفر علی شاہ شامل تھے جنہوں نے موضوع کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات کے پس منظر اور پیش منظر پر کھل کر اظہار خیال کیا جو نذر ِ قارئین ہیں۔
شمشاد احمد خان
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں آزادی کے فوری بعد دوروں کے دورے پڑنے شروع ہوگئے تھے۔ ہماری چھوٹی سی مشینری تھی جو ساری اس کام میں لگی ہوتی تھی کہ وزیراعظم کہاں سے کیسے پیسے لاسکتا ہے۔ ہم نے اگر امریکا میں اپنا سفیر بھی مقررکیا تو اس لیے کہ کچھ پیسے لے آؤ۔ ہم نے پاکستان بنتے بھی دیکھا اور ٹوٹتے بھی ۔ ہمارے سرکاری دفاتر گھاس پر بیٹھ کر چلائے جاتے تھے۔ اس وقت تو بات قابل فہم تھی کہ لیاقت علی خان کا امریکی دورہ کیوں تھا کیونکہ اس وقت پاکستان کو زندہ رکھنا بھی ضروری تھا کیونکہ انڈیا کی طرف سے بڑی سکیورٹی تھریٹس تھیں۔
ہم نے ماسکو سے سٹالن کی آئی ہوئی دعوت کو ردکردیا ، امریکا کو پتہ چلا تو اس نے ہم سے میچ کرلیا ، پھر لیاقت علی خان نے دو ہفتے کا طویل ترین دورہ کیا، لیکن لگتا ہے کہ اب دورے کی طوالت اور تعداد کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف بھی پانچ ماہ میں آٹھ ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے ایک دورے کا مقصد تو پاکستان کو نیوکلیئر طاقت تسلیم کروانے کے سلسلے میں تھا جس میں امریکا نے ہمیں انڈیا کے برابر تسلیم کیا تھا۔ اس وقت ہم نے کوئی دباو تسلیم کئے بغیر اپنی برابری تسلیم کرائی۔ اس پر امریکیوں نے کہا کہ آئندہ جب بھی کوئی سزا یا جزا دینی ہوگی اس میں ہم دونوں ممالک سے ایک طرح سے سلوک کریں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ایک امریکی دورہ جنرل پرویز مشرف کے کارگل سٹیج کے تناظر میں کیا تھا جس کا فارن آفس تک کو علم نہیں تھا خود مجھے ایک روز پہلے بتایا گیا اور امریکا میں ان کا استقبال پرنس بندر بن سلطان نے کیا تھا۔ یہ جنرل مشرف کا درخواست کردہ دورہ تھا کہ کارگل سے ان کی جان چھڑوا دی جائے۔
نوازشریف کا ایک ذہن ہے کہ بھیک نہیں لینی ، جو درست ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ ان کے وزراء آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کا کام کرتے رہیں گے۔ مشرف کی بھی یہی پالیسی تھی، اس نے جب بھی چین سے مانگنا ہوتا تھا تو اپنے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو بھجوا دیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ جنرل مشرف کے دور میں چونکہ دونوں ملکوں کے مابین ڈائیلاگ کی ریسٹوریشن ختم ہوگئی تھی ، صدر زرداری کو اوباما نے شرف ملاقات بھی نہیں بخشا تھا اور وہ این آر او زدہ ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میاں نوازشریف کا البتہ بڑا اچھا استقبال ہوا لیکن اس میں بھی پروٹوکول کی چند خامیاں رہ گئی تھیں۔اس دورے اور اوباما سے ملاقات کے بعد امریکا اور پاکستان دونوں ایک بار پھر ٹریک پر آگئے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ ہر مسئلے کا حل صرف اور صرف ڈائیلاگ ہوتے ہیں اور امید ہے کہ یہ سلسلہ چل پڑنے سے امریکا اور ہمارے آئندہ کے کنسرنز دور ہوجائیں گے۔ ہماری ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم امریکا، چین ، جاپان یا روس کہیں بھی چلے جائیں ذہن میں یہی ہوتا ہے ہمیں ملے گاکیا۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر قوم کی سوچ بن چکی ہے جس میں میڈیا بھی ساتھ مل جاتا ہے۔ ملاقات کی رات میں نے اپنا ٹیلیفون بند کرکے رکھا اور میڈیا رات گئے تک رابطے کی کوشش کرتا رہا۔ میرے سامنے تو یہ معمول کا دورہ تھا جس کے مقاصد بڑے محدود تھے جو حاصل ہوگئے ہیں۔ اس ملاقات میں کوئی معجزہ نہیں ہونے والا تھا۔ میں کہتا ہوں حکمرانوں کو مت لتاڑیئے خود اپنے بارے میں سوچیں کہ ان حکمرانوں سے اتنی توقع کیوں رکھی جو ڈلیور نہیں کرسکتے۔ ہم پہلے یہ تو دیکھیں کہ انہوں نے اپنے گھر میں یعنی ہمیں کیا دیا ہے۔
جب یہ ملک حالت جنگ میں ہے جس ملک میں سوسو افراد دہشت گردی کی نذر ہوجائیں اور اس کا حکمران باہر کے دورے کررہا ہو ۔ اصل میں ہم خود بے حس ہوچکے ہیں، قبائلی علاقوں کو ہم اپنے ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ، اگر حکمران بھی ان علاقوں کو ملک کا حصہ سمجھتے تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ موجودہ وزیراعظم کی بات نہیں شوکت عزیز نے اپنے دور میں ایک سوسے زائد دورے کیے حالانکہ من موہن سنگھ صرف بہت ضروری دوروں پر باہر جاتے ہیں۔ ہمارے مسئلوں کا حل الریاض، ابوظہبی، واشنگٹن کے پاس نہیں بلکہ پاکستان کے اندر ہے۔
طالبان سے مذاکرات کی اپیل واشنگٹن جاکر نہیں بلکہ یہاں ان سے بات کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی ترجیحات قائم کرنا ہونگی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ گاڑی کو آگے رکھتے اور گھوڑے کو پیچھے باندھتے ہیں۔ مان لیں اگر امریکہ ہمیں گریٹر مارکیٹ ایکسیس دے بھی دے تو ہوزی آئٹمزکے علاوہ ہمارے پاس ہے ہی کیا ایکسپورٹ کرنے کو ، اس سے زیادہ تو سری لنکا ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ فیکٹریاں آپ کی بند پڑی ہیں ، بجلی کہیں ہے نہیں ، ہم تو ملکی ڈیمانڈ پوری نہیں کر رہے ۔ شرم آنی چاہیے کہ ساٹھ سال بعد بھی ہم کاٹن یارن ہی باہر بھیج رہے ہیں ، ہم نے کبھی اپنی ایکسپورٹس میں ویلیو ایڈیشن کا سوچا بھی نہیں ۔ پاکستان جیسے حالات والے ملک میں تو کوئی پاکستانی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ، یہاں سے کتنا پیسہ روز باہر جا رہا ہے۔
جس ملک کی معیشت ٹھیک نہ ہو وہاں سے پیسہ باہر ہی جائے گا۔ اس سے بھی زیادہ معاملہ امن وامان کی خراب صورتحال اور سکیورٹی والا ہے ۔ جب آپ روز ایس آر اوز کیلئے پالیسیاں تبدیل کردیتے ہیں تو کون انویسٹمنٹ کرے گا۔ ہمارے حکمران دوروں کے اگر اتنے ہی شوقین ہیں تو ضرور کریں لیکن چھ ماہ تک ملک کے اندر بیٹھ کر کام کریں تب آپ کے دوروں کی قدر بھی ہوگی۔ مسئلہ پاک امریکا تعلقات کا نہیں بلکہ ان کی نوعیت کا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ذاتی اقتدار اور مفادات کو اہمیت دے رکھی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کے پاس اکثریت ہے اس لیے وہ خود کو مفلوج نہ سمجھیں ۔ امریکا نے جب بھی کوئی کام ہم سے کروانا ہوتا ہے تو کہتا ہے یہ کردو اور اس کی مزدوری وہ ہمیں دے دیتا ہے۔ چین، ایران، افغانستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ اب امریکا بھی فزیکلی طور پر ہمارا ہمسایہ بن چکا ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ مڈل ایسٹ میں بھی بیٹھا ہوا ہے۔ بہر حال امریکا سے برابری کی سطح پر تعلق ہونا چاہیئں اس کے لئے پہلے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ہمایوں احسان
میڈیا ہلکی پھلکی ہائپ کری ایٹ کرتا ہے یہ اس کا کام ہے تاکہ لوگوں میں آگہی پیدا ہو اور ہمارے سیاست دان اور عوام کھڑے ہو جائیں اور آنکھیں کھول کر بات کریں۔ ملکی سلامتی کی بات کرلینے میں انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند والی کیا بات ہے، میاں نوازشریف نے سلامتی کی بات کرکے ٹھیک کیا ہے۔ پاکستان میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ڈرون گرادیں ، لوگ کہتے ہیں ڈرون حملے بندکروا دیں۔ ڈرون حملے بند کروانے اور ڈرون گرانے ان دونوں مطالبات میں بہت فرق ہے۔
ہم ڈرونز گرانے کو عقل کے قریب نہیں سمجھتے جبکہ ڈرون حملے بند کروانے کا مطالبہ ہمارا جائز حق ہے اور اس مطالبے میں دنیا بھی ہمارے ساتھ ہے بین الاقوامی قانون بھی یہی کہتا ہے تو یہ مطالبہ کرنا اتنا ناجائز نہیں ہے ۔ وزیراعظم کا امریکا کے ساتھ گفتگوکی حد تک یہ دورہ کامیاب ہے اور اگر وزیراعظم کی تنہائی کی ملاقات والی خبر ہم تک نہیں پہنچ سکی۔ اگر وہ دونوں پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ ان کا دورہ کامیاب ہوا تو ہمیں ان کی بات مان لینی چاہیے۔ دوسری جو باتیں ہمارے سامنے اوپن ہوئیں اس میں کامیابیوں کا اعلیٰ معیار نظر نہیں آتا۔ نوازشریف کشمیرکی بات نہ کرتے تو بھی غلط تھا اور اگر کی تو ہمیں کیا ملا۔ اس ملاقات کے ایجنڈے کی باتیں تو شمشاد خان جیسے تجربہ کار لوگ ہی بتاسکتے ہیں۔ امریکہ نے تو آپ کے ہاتھ باندھ دیئے ہیں۔اس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی بات کرنا بند کردیں کیونکہ یہ بات اس کے خلاف ہے جو ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔
قوم میں سیاسی میچورٹی پیدا کرنے کے لئے انہیں سابق صدر ایوب خان اور موجودہ وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ دورۂ امریکہ کی دس دس تصاویر دکھا دیں جس سے انہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم کہاں سے کہاں کس تیزی سے جارہے ہیں۔ اب سیاست میں ایک فیکٹر عمران خان کی صورت میں آیا ہے جس نے ڈرون حملوں کے خلاف بات کی ہے اور بعض لوگوں نے انہیں غیرت بریگیڈ قراردیا ہے اور اچھا کیا ہے، دوسروں کو بھی ڈرون حملے رکوانے کی بات کرنی چاہیے ۔
دورہ امریکہ میں وزیراعظم نے امریکی صدر اوباما سے مسئلہ کشمیر اور ڈرون پر جو بات کی تو سننے والے کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اس کے کہنے کا کیا مقصد ہے اور وہ کس مجبوری سے کہہ رہا ہے لیکن اس کے جواب میں رسپانس یہ ملاکہ انہوں نے اپنی ایک سانس بھی ضائع نہیں کی۔ یورپ میں ٹیلیفون والے معاملے پر بھی صدر اوباما نے جواب تک نہیں دیا اسی طرح اوباما نے اپنا سٹانس ریزروکردیا کوئی بات نہ کرکے، ان کے بیانات میں واضح ہوتا ہے کہ اوپر سے نیچے پانی بہتا نظرآرہا ہے۔
حالیہ امریکی دورے کا مقصد محض صدر اوباما سے ملنا ہی نہیں تھا بلکہ وزیراعظم نے بزنس کمیونٹی اور دیگر پاکستانیوں سے بھی خطاب کیا تو کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی انہیں کوئی پازیٹو رسپانس دیا ؟اور کہاکہ ہم ملک پر کچھ نچھاور کرینگے ، میڈیا ان کی گفتگو بھی ہم تک پہنچاتا، وزیراعظم ان سب سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں لیکن کیا سب سمندر پار پاکستانی بھی ملکی مفاد کے خلاف ہیں؟ کیا وہ سب پاکستان کے لیے نہیں سوچتے ؟ الیکشن میں بہت سے پاکستانی جہازوں پر بیٹھ کر آئے تھے۔کیا امریکا میں کوئی سفیر یا ہوا کا رخ بھی تبدیل ہوا ہے جو چیزیں ان کے لئے ضروری تھیں نوازشریف نے انہیں کنٹرول کیا ہے۔ مسائل پر کامیابی والی تو کوئی بات نہیں۔ ایک چیز جو نظر آئی کہ سابق صدر مشرف دورکے کچھ پراجیکٹس کو ریوائیو کیا گیا اور مشرف کو دوغلاپن والا سمجھتا تھا لیکن وزیراعظم نوازشریف پر یہ الزام نہیں ہے۔
ایڈمرل (ر) جاوید اقبال
ہم ہر معاملے میں اس بچے کی طرح بہت سی توقعات لگا لیتے ہیں جو چاہتا ہے کہ اسے کھیلنے کے لئے گیند ملے اور فوری ملے ورنہ وہ چیزیں توڑنا پھوڑنا شروع کردیتا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچتا تھا کہ امریکا کے دورہ سے کچھ ملے گا تو یہ خام خیالی تھی، دورے کی ابتداء سے دانش ور اپنے تجزیوں کے ذریعے نئی نئی چیزیں نکالنا شروع کردیتے ہیں جبکہ یہ کوئی نیا دورہ نہیں تھا، اس دورے میں نئی بات سمجھنا جو کہ اس میں ایک صرف یہ ہے کہ ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار دیا اور موجودہ وزیراعظم پاکستان کی صرف یہ اہمیت تھی کہ ملک میں 65سال بعد ایک جمہوری حکومت کے بعد دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے بعد منتخب ہونے والا وزیراعظم تھا۔ جمہوریت کا جو پودا ہمارے ہاں ہے اس کا قد اس کے برابر نہیں ہے جو واشنگٹن میں ہے۔
اگر قوم نے اس کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے تو ایک اس کی ذات کے حوالے سے ہے اور دوسرا اس کے عہدے کے حوالے سے اس کی اچیو منٹ ہو سکتی تھی۔ ان کی ذات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اچیومنٹ اچھی تھی۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک تالاب میں 4تیراک چھوڑ دیئے جائیں ایک کی ٹانگ بندھی ہو اور ایک کی ٹانگ زخمی ہو تو اس کی کارکردگی آزاد ٹانگ والے کی کارکردگی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اس دورے کی کامیابی یہ ہے کہ پاکستان کی پہچان بدلی گئی، جس ملک میں فوج کے مطیع حکمران ہوا کرتے تھے وہاں ایک منتخب آزاد وزیراعظم ہے، جی ایچ کیو کی طرف سے منتخب حکومت نہیں تھی۔
مسئلہ کشمیر اور ڈروں حملوں کے مسئلے پر بات ہوئی ہے ۔ دانشوروں نے اپنے تجزیوں سے عوام کے ذہن میں اس دورے کے حوالے سے بہت سی توقعات بنا دی تھیں اور جب یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں تو پریشان ہوجاتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کا کوئی موازنہ نہیں ہے، امریکا واحد سپر پاور ہے اور وہ سوچتا ہے کہ واحد سپر پاورہونے کے ناتے ابھی تک پوری مڈل ایسٹ میں اس کا کنٹرول نہیں ہے اور جن ممالک میں روس کا اثرو رسوخ ہے ان میں عرب سپرنگ کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے اس لئے وہاں حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔
وہ لوگ جو پاکستان میں ڈکٹیٹروں کی ملازمت کرتے تھے اور وہ ملک جہاں وزیراعظم جی ایچ کیو کا طواف کرنے کے بعد وزیراعظم بنتا تھا وہاں انہیں جمہوریت ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ ایک جرنیل کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہوتا ہے مگر جہاں مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق کے نعرے لگیں اور ایک جرنیل ملک کی نظریاتی سرحدوں بھی قائم کرے وہاں جمہوریت کو ہضم کرنا مشکل ہے۔ ایک ٹیم اگر مسلسل میچ کھیلتی رہے تو وہ غلطیاں کرکے سیکھتی ہے اور اپنا کھیل بہتر کر لیتی ہے ہمارے ہاں بھی جمہوریت کو موقع ملنا چاہیئے۔ نواز شریف کا دورہ اس حوالے سے کامیاب رہا کہ انہوں نے ڈرون حملوں، مسئلہ کشمیر اور پانیوں کے حوالے سے بات کی۔ وزیراعظم کی طرف دیکھنے سے پہلے کہ وہ کیا لے کر آئے یہ سوچیں کی وہ اپنے سسرال نہیں گئے تھے کہ کچھ لے کر آتے۔
دنیا میں 193ممالک ہیں اور ان کے سربراہان ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیںاور اپنے مسائل ایک دوسرے کو بتاتے ہیں، نواز شریف نے بات کی ہے اگر کوئی یہ سمجھے کہ ڈرون گرا دے تو کوئی مائی کا لال ایسا نہیں ہے جو ڈرون گرائے اور پھر اس کے نتائج بھگتے۔ ہم صرف گھاس کھانے کی بات کرتے ہیں کبھی گھاس کھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
اس وقت ہم مشکل حالات میں ہیں ان کو دیکھنا چاہیے۔ امریکا آج تک جہاں گیا وہاں سے نہیں نکلا وہ سعوری عرب ہو، عراق یا اب افغانستان سے بھی نکلے گا نہیں ۔ ضیاء الحق اور مشرف نے ملک بیچ دیا ۔ عوام کو صحیح صورتحال بتانی چاہیے، اس وقت تو ہمیں اپنی پہچان بنانے کی بھی ضرورت ہے ، اس لئے اگر نواز شریف نے کارکردگی نہ دکھائی تو ان کا حال بھی پہلے والوں جیسا ہوگا اور دوسری طرف عمران خان ہیں انہوں نے اگر خیبر پختونخوا میں کارکردگی دکھائی تو عوام ان کو دعوت دیں گے کہ وہ آجائیں۔
بریگیڈیئر(ر) سید غضنفر علی شاہ
پاکستان امریکا تعلقات کو آج سے نہیں بلکہ جب سے ہمیں آزادی ملی تب سے دیکھنا ضروری ہے، موجودہ صورتحال میں اگر ماضی میں جائیں تو 2001ء کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کی ابتداء 9الیون سے ہوئی اور ابھی تک اس کی انتہاء نہیں ہوئی ہے اس کا فال آؤٹ افغانستان پر ہوا۔ پاکستان اور دونوں جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں دونوں ہمسایہ ممالک ہیں اور دونوں سرحدوں کی طرف ایک جیسے قبائل رہتے ہیں اور ان تمام قبائل کو ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کی آزادی ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں اس صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک جہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار دیا اور عوام نے نئی حکومت کو مینڈیٹ دیا ہے، اب نئی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی ترجیحات طے کرنی تھیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی پالیسی بنانا تھی۔ جغرافیائی طور پر دیکھیں تو پاکستان ایسی جگہ پر واقع ہے کہ اس کہ بہت اہمیت ہے اس کی جغرافیائی موجودگی نہ کوئی تبدیل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔
اس کے ایک طرف روس اور دوسری طرف چین ہے اور دونوں بڑی طاقتیں ہیں۔ پاکستان کی اسی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اس کے معرض وجود میں آنے سے اب تک اس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔ امریکا اور روس کی نظریں تو ہم پر ہیں ہی اور دوسرا ہمارا ہمسایہ بھارت ہے جو آج تک یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اس کی دھرتی ماتا کو کاٹ دیا اس لئے آج تک اس نے ہمیں قبول نہیں کیا اور جب بھی موقع ملتا ہے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، 1965ء یا 71ء کی جنگ ہو یا کوئی اور موقع وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
مختلف حالات اور چیزیں خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان ابتداء میں فوجی اور صنعتی حوالے سے اس قابل نہیں تھا کہ ملک چل سکے اور اس وقت ہمیں دوسروں پر انحصار کی ضرورت تھی، اس وقت اگر بیرونی امداد کی بات کی جاتی تو سمجھ میں آنے والی بات تھی مگر اس کے بعد ہم نے مختلف ادوار میں ترقیاتی منصوبے بنائے مگر ان پر عمل نہیں کیا جبکہ ہمارے ترقیاتی منصوبے دیگر ممالک نے اپنائے اور ترقی کی اور ہم خود ابھی تک کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔ یہ سب ہماری اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ جب سوویت یونین نے روس پر حملہ کیا تو ہم نے اسلام کے نام پر اس کے خلاف لڑنا شروع کردیا ، جو نظریات اس وقت عام کئے گئے انہوں نے تقویت پکڑی ۔ مجاہدین کے نام پر لوگوں کو یہاں لایا گیا اور روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکا نے انہیں چھوڑ دیا۔
اس وقت پوری دنیا سے غیر ملکی اور عرب اور دیگر ممالک سے لوگ افغانستان میں لائے گئے اور بعد میں وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ امریکا کی اس علاقے کے بارے میں ایک الگ سوچ ہے اس حوالے سے ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے جس میں لکھاگیا ہے کہ امریکہ کیسپیئن سی کے تیل کو حاصل کرنے کیلئے بلیک واٹر کا استعمال کر رہا ہے۔ بلیک واٹر کا استعمال اس لئے کر رہا ہے کہ چیلنجز کے مقابلے میں ملکی پالیسی بنانے کے کام آئے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب بھی ہم امریکا کے پاس جائیں اپنے مفاد کو سامنے رکھیں۔ امریکا سے امداد آتی رہتی ہے اور مختلف ادوار میں اس میں تبدیلی بھی آتی رہی، کبھی فوجی امداد زیادہ اور معاشی کم اور کبھی معاشی امداد زیادہ اور فوجی امداد کم ملتی رہی۔ پاکستان صر ف اکیلا ملک نہیں ہے جس کو امریکا امداد دیتا ہے بلکہ 20ممالک جو امریکا سے امداد لیتے ہیں، اس امداد کا 30فیصد صرف افغانستان کو جاتا ہے ، 6فیصد اسرائیل اور صرف 3فیصد پاکستان کو ملتا ہے جبکہ عراق کو بھی ہم سے زیادہ امداد ملتی ہے۔
پاکستان کی جب بھی امریکا سے تعلقات کی بات ہوتی ہے تو اس میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ ہم نے امریکا سے مدد لینی ہے، جو پارٹی حکومت میں آتی ہے وہ ملکی مفاد کی بجائے اپنے ذاتی یا پارٹی مفاد کو سامنے رکھ کر تعلقات بناتی ہے جبکہ ملکی مفاد کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ امریکا جب بھی ہمیںکوئی امداد دیتا ہے تو اس میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی شامل نہیں ہوتی تاکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔ جب بھی ہمیں کوئی فوجی آلات یا اسلحہ دیا جاتا ہے تو تیار حالت میں دیا جاتا ہے نہ اس کی ٹیکنالوجی دی جاتی ہے اور نہ اس کی مرمت کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔
اس ساری صورتحال پر ہم امریکہ کو الزام دیتے ہیں مگر ہم نے اپنی طرف کبھی نہیں دیکھا، امریکا کے اپنے قومی مفادات ہیں مگر ہمارے ہاں قومی مفاد پارٹی مفاد میں ضم ہوجاتا ہے، ہر پارٹی اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہے، جب تک ذاتی مفاد سے آگے نہیں بڑھیں گے ہم اپنے معاملات حل نہیں کرسکیں گے۔ نواز شریف کا دورہ امریکہ بھی انہی حالات کے تناظر میں تھا ، اس دورے میں یہ تھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں کون سی چیز سب سے زیادہ متاثر کررہی ہے تووہ ہیں ڈرون حملے ان پر بات ہوئی، اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ پاکستان کا کشمیر کا مسئلہ ہے جس پر بھارت اپنے آباؤ اجداد جنہوں نے اس مسئلے کو مانا تھا اس سے بھاگ گئے ہیں اور اب وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں، اس پر ہم نے اپنے تحفظات پیش کردیئے ہیں مگر ہماری مجبوریاں اتنی ہیں کہ ہم اپنے مفاد کو حاصل نہیں کرسکے اس لئے ہمیں ان کی سننا پڑتی ہے۔
ہم نے چھوٹا ملک ہونے کے باوجود چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات بنائے اور روس کے ساتھ جنگ لڑی مگر امریکا کی طرف سے جو رسپانس ملنا چاہیئے تھا وہ نہیں ملااور لوگوں کی جو توقعات تھیں وہ بھی پوری نہیں ہوئیں۔ اب امریکا افغانستان سے انخلاء کے نام پر بھی گریٹ گیم کر رہا ہے اور وہ وسط ایشیائی ریاستوں کے وسائل اور تیل کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہ رہا ہے اور وہ اپنا مفاد ضرور رکھے گا۔

0 comments: